Urdu drama ka aghaz-o-irtiqa | اردو ڈرامے کا آغاز و ارتقا

اردو ڈرامے کا آغاز و ارتقا

اردو ڈراما نگاری کی ابتدا :

رادھا کنہیا :

اردو ڈرامے کی ابتدا لکھنئو کے نواب واجد علی شاہ کے ڈراما ’’رادھا کنھیا‘‘ کے قصے رہس سے ہوتی ہے۔ اسے اسٹیج پر ریہرسل کے انداز میں پیش کیا گیا تھا۔ واجد علی شاہ کو رقص اور موسیقی سے کافی دلچسپی تھی۔ واجد علی شاہ ’’کرشن لیلا‘‘ اور ’’راس لیلا‘‘ کے متعلق کھیل رہس کو بہت پسند کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنے دربار میں رہس خانہ بنوایا۔ پھر انھوں نے رادھا کنہیا کا قصہ لکھ کر دربار میں پیش کیا۔ اسی طرح انھوں نے اپنی مثنویوں کو بھی ڈرمے کی شکل میں پیش کیا۔

’’راکھا کنہیا‘‘ کے متعلق کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ اردو کا پہلا ڈراما ہے۔ لیکن بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ باضابطہ ڈراما نہیں بلکہ رہس ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ اسے جس انداز میں پیش کیا گیا تھا اور جو کردار اسے پیش کررہے تھے اس سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ ڈرامے کی ابتدائی کوشش اور پہلا قدم ہے لیکن اس کو اردو کا پہلا ڈراما نہیں کہا جاسکتا کیونکہ اس کا پلاٹ مکمل نہیں ہے۔

لیکن ڈرامے کی روایت میں اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ یہی وہ پہلی کہانی ہے جس میں ڈرامے کے اثرات نظر آتے ہیں اور اسی کہانی سے ڈرامے کی روایت قائم ہوئی۔پھر نواب واجد علی شاہ کی دلچسپی اور ان کی سرپرستی سے اردو ڈرامے کی روایت قائم ہوئی اور لکھنئو میں باقاعدہ اردو ڈراما نگاری کا آغاز ہوا۔

اندر سبھا :

جن لوگوں نے رادھا کنہیا کو ڈراما ننے سے انکار کیا ہے ان کا ماننا ہے کہ اردو کا پہلا ڈراما ’’اندر سبھا‘‘ ہے۔ اس ڈرامے کو سید آغا حسن امانت لکھنوی نے ۱ /اگست ۱۸۵۲ کو لکھا لیکن اسے ۴ جنوری ۱۸۵۴ کو پیش کیا گیا۔ اس ڈرامے کی زبان صاف ستھری ہے اور اس میں اس عہد کی تصویر بھی پیش کی گئی ہے۔ اس عہد کے لوگوں کے مطابق ہی یہ ڈراما لکھا گیا۔ اسی لیے لوگوں نے اسے بہت پسند کیا۔ اس کی مقبولیت کے بعد ڈراما نگاری  کا باقاعدہ  سلسلہ قائم ہوا۔

اردو ڈراما نگاری اور پارسی تھیٹر :

 اندر سبھا کے بعد بہت سے ڈرامے وجود میں آئے۔ خاص کر ممبئی اور کلکتہ میں اردو ڈرامے کو کافی فروغ ملا۔ اس سلسلے میں پارسی تھیٹر کا بھی اہم کردار رہا ہے۔ پارسی کمپنیوں کی وجہ سے لوگوں میں ڈرامے سے دلچسپی پیدا ہوئی۔ اسی کو دیکھتے ہوئے ادیبوں نے ڈراما لکھنا شروع کیا۔ اس وقت ڈراما نگاروں میں طالب بنارسی، احسن لکھنوی، بیتاب بریلی اور آغا حشر کاشمیری وغیرہ کے نام کافی اہم ہیں۔ انہوں نے اردو ڈرامے کی روایت کو فروغ بخشا۔

احسن لکھنوی کی ڈراما نگاری:

احسن لکھنوی ایک شاعر تھے۔ لیکن جب انھوں نے ڈرامے کی طرف توجہ کی تو ان کے بہت عمدہ ڈرامے منظر عام پر آئے۔ انھوں نے سب سے پہلے مثنوی ’’زہر عشق ‘‘ کو ڈرامے کی شکل میں لکھا۔ یہ مثنوی ان کے نانا مرزا شوق کی ہے۔ اس کا نام انھوں نے ’’دستاویز  محبت‘‘ رکھا۔ اس کے علاوہ انھوں نے بہت سے ڈرامے لکھے جن میں چنداولی، خون ناحق عرف مار آستین،شہید وفا، دل فروش اور شریف بدمعاش وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

طالب بنارسی کی ڈراما نگاری:

طالب بنارسی نے تجارتی کمپنیوں کے لیے ڈرامے لکھے۔ انھوں نے اپنے ڈراموں کو بہت زیادہ آسان اور سلیس بناکر پیش کیا۔ ان کے ڈراموں میں گوپی چند، نازاں او ر لیل و نہار وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

پرشاد بیتاب کی ڈراما نگاری :

پرشاد بیتات کے ڈرامے بھی قابل ذکر ہیں۔ انھوں نے قتل نظر، میٹھا زہر، مہابھارت، رامائن، سیتا اور شکنتلا جیسے اہم ڈرامے لکھے۔

آغاز حشر کاشمیری کی ڈراما نگاری :

ڈراما نگاری کے باب میں سب سے اہم نام آغاحشر کاشمیری کا ہے۔کہا جاتا ہے کہ ابھی تک  جتنے بھی ڈرامے لکھے گئے تھے ان کو ادبی حیثیت حاصل نہ ہوسکی تھی۔ آغا حشر کاشمیری نے سب سے پہلے ادبی ڈرامے کا آغاز کیا۔ آغا حشر کاشمیری کو اردو ادب کا شیکسپیئر کہا جاتا ہے۔ انھوں نے بہت سے ڈرامے لکھے۔ انھوں نے اپنے ڈراموں میں ملک اور سماج کے اہم مسائل کو موضوع بنایا ہے۔ ان کے ڈراموں میں اسیر حرص، مار آستین، شہید ناز، خواب ہستی، یہودی کی لڑکی، سفید خون، رستم وسہراب اور سلور کنگ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ان ڈراموں کے ذریعے انھوں نے اردو ڈراما نگاری کی روایت میں اہم اضافہ کیا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ انھوں نے اپنے ڈراموں میں عوام کی دلچسپی کا خاص خیال رکھا ہے۔ اسی طرح ان کی زبان بھی بہت خوبصورت اور عمدہ ہے۔

اردو ادیبوں کی ڈراما نگاری :

اس کے بعد  اردو ادیبوں اور قلم کاروں کا رجحان  ڈرامے کی طرف بڑھتا گیا اور بہت سے ادیبوں نے اہم اور لازوال ڈرامےلکھے۔ محمد حسین آزاد کا ڈراما ’’اکبر‘‘، مرزا ہادی رسوا کا ’’لیلی مجنوں‘‘ اور طلسم اسرار، عبدالحلیم شرر کا شہید وفا، عبدالماجد دریابادی کا زورد پشیماں، پریم چند کا کربلا اور رومانی شادی ، چکبست کا ’’کملا‘‘ وغیرہ اردو ڈرامے کی روایت میں اہم اضافے ہیں۔

امتیاز علی تاج  اور ڈراما انار کلی :

ڈرامے کی روایت میں امتیاز علی تاج کا نام بھی قابل ذکر ہے۔ انھوں نے ڈراما ’’انار کلی‘‘لکھا جو بے حد مقبول ہوا۔ انھوں نے یہ ڈراما ۱۹۲۲ میں لکھا لیکن ۱۸۳۲ میں شائع ہوا۔ یہ ڈراما مکالمہ نگاری کی وجہ سے بے حد  پر اثرہے۔

ترقی پسند تحریک اور اردو ڈراما نگاری :

جب ترقی پسند تحریک کا آغاز ہوا تو اس وقت بھی ادیبوں نے بہت سے عمدہ ڈرامے لکھے۔ اور انھوں نے اپنے منفرد اسلوب اور نئے نئے موضوعات کے ذریعے اردو ڈرامے کی روایت کو فروغ بخشا۔ اس سلسلے میں خواجہ احمد عباس کا  ایٹم بم، کرشن چندر کا سرائے سے باہر، کتاب کا کفن، بیدی کا نقل مکانی، عصمت چغتائی کا سانپ، سردار جعفری کا یہ کس کا خون اور منٹو کا  اس منجھدار میں وغیرہ ڈرامے قابل ذکر ہیں۔

ترقی پسند تحریک کے بعد اردو ڈراما نگاری :

اسی طرح ڈراما نگاری کی روایت بعد میں بھی قائم رہی اور آج بھی اس کی روایت میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ مذکورہ ڈراما نگاروں کے علاوہ محمد مجیب، سید عابد حسین، حبیب تنویر اور محمد حسن وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ حبیب تنویر کے ڈرامے آگرہ بازار اور شطرنج کے مہرے،محمد حسن کا ڈراما تماشا اور تماشائی وغیرہ ڈرامے کی روایت میں اہم اضافے کی حیثیت رکھتے ہیں۔

ان کے علاوہ زاہدہ زیدی، ساگر سرحدی اور ابراہیم یوسف وغیرہ کے نام بھی کافی اہم ہیں جنہوں نے اردو ڈرامے کی روایت میں اہم اضافہ کیا۔

ڈاکٹر مطیع الرحمٰن                                                                         

Post a Comment

0 Comments