تشبیہ کی تعریف اور اقسام | Tashbeeh ki tareef aur aqsaam

تشبیہ کی تعریف

تشبیہ  کے لغوی معنی ہیں باہمی مشابہت ۔ یعنی کسی ایک چیز یا شخص کو دوسری چیز یاشخص کی مانند قرار دینا۔

اصطلاح میں جب کسی ایک شخص یا چیز کو کسی آپسی مشابہت یا مشترک خوبی و خصوصیت کی وجہ سے دوسرے شخص یا چیز کی مانند قرار دیا جائے تو اسے تشبیہ کہتے ہیں۔مثال نمبر۱۔:

نازکی اس کے لب کی کیا کہیے

پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے

مثال نمبر ۲۔:

اس کا بیٹا چاند کی مانند خوبصورت ہے۔

ارکان تشبیہ

ارکان تشبیہ پانچ ہیں:

۱۔ مشبہ:

جس چیز یا شخص کو دوسری چیز یا شخص کی مانند کہا جائے وہ مشبہ ہے۔ یعنی وہ شخص یا چیز جس کو تشبیہ دی جائے۔ اوپر کی مثال میں بیٹا مشبہ ہے۔

۲۔ مشبہ بہ:

وہ شخص یا چیز جس سے کسی شخص یا چیز کو تشبیہ دی جائے وہ مشبہ بہ ہے۔ اوپر کی مثال میں چاند مشبہ بہ ہے۔

ان دونوں یعنی مشبہ اور مشبہ بہ کو طرفین تشبیہ بھی کہا جاتا ہے۔

۳۔ حرف تشبیہ:

ایک چیز کو دوسری چیز کی طرح دکھانے کے لیے جس لفظ کا استعمال ہوتا ہے اسے حرف تشبیہ کہتے ہیں۔ مثلاً جیسا، جیسے، جیسی، مانند، مثل، گویا، جوں، سا، سی، سے یا طرح وغیرہ۔ ان الفاظ کو ادوات تشبیہ بھی کہتے ہیں۔

۴۔ وجہ شبیہ:

وہ خصوصیت یا خوبی جس کی وجہ سے ایک چیز کو دوسری چیز سے تشبیہ دیتے ہیں اسے وجہ شبہ کہتے ہیں۔ اوپر کی مثال میں بیٹا اور چاند میں جو خصوصیت ایک جیسی ہے وہ ہے خوبصورتی۔ یہی خوبصورتی وجہ شبہ ہے۔

۵۔ غرض تشبیہ:

وہ غرض یا مقصد جس کی وجہ سے تشبیہ دی جاتی ہے اسے غرض تشبیہ کہتے ہیں۔ اس کا ذکر تشبیہ میں نہیں ہوتا ہے بلکہ اس کا پتہ خود لگ جاتا ہے یا لگانا پڑتا ہے۔ اوپر کی مثال میں بیٹے کی خوبصورتی کو دکھانا اصل مقصد ہے۔ یہی غرض تشبیہ ہے۔ ایک اور مثال  دیکھیے:

زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے

ہم تو اس جینے ہاتھوں مر چلے

اس شعر میں زندگی کو طوفان سے تشبیہ دی گئی ہے۔ اس میں زندگی مشبہ ہے اور طوفان مشبہ بہ، حرف شبہ یا ہے ، وجہ شبہ زندگی کے مصائب، پریشانیاں اور غرض تشبیہ ہے زندگی کےمصائب اور پریشانیوں کو دکھانا۔

طرفین تشبیہ

طرفین تشبیہ (مشبہ، مشبہ بہ) کی دو صورتیں ہیں۔ ۱۔ حسی۔۲۔ عقلی

حسی : جسے حواس خمسہ ظاہری سے معلوم کیا جاسکے(حواس خمسہ =باصرہ، سامعہ، لامسہ، شامہ، ذائقہ)

عقلی:  جسے عقل سے معلوم کیا جاسکے۔

اس اعتبار سے طرفین تشبیہ کی چار قسمیں ہیں:

۱۔ دونوں (مشبہ اور مشبہ بہ) حسی ہوں گے، مثلاً:

امڈی آتی ہیں آج یوں آنکھیں

جیسے دریا کہیں ابلتے ہوں

یہاں میرؔ نے امڈی آنکھوں کو ابلتے دریا سے تشبیہ دی ہے۔ ان دونوں کو قوت باصرہ سے محسوس کرتے ہیں۔

۲۔ دونوں (مشبہ ، مشبہ بہ) عقلی ہوں گے، مثلاً علم کو زندگی سے تشبیہ دینا اور جہل کو موت سے۔

۳۔ مشبہ عقلی اور مشبہ بہ حسی ہوگا، مثلاً:

زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے

اس میں مشبہ زندگی عقلی اور مشبہ بہ طوفان (جسے دیکھ سکتے ہیں )حسی ہے۔

۴۔ مشبہ حسی، مشبہ بہ عقلی ہوگا،مثلاً:

نگہ آفت و چشم عین بلا

اس میں چشم (آنکھ) مشبہ ہے جو حسی ہے اور بلا (مصیبت، فتنہ) مشبہ بہ ہے جو عقلی ہے)

اقسام تشبیہ

تشبیہ کی کئی قسمیں ہیں۔ یہاں چند مخصوص اقسام کا ذکر کیا جا رہا ہے۔

۱۔ تشبیہ قریب یا مبتذل:

جس تشبیہ کی وجہ شبہ آسانی سے سمجھ میں آجائے اسےتشبیہ قریب کہتے ہیں، مثلاً:

وقت پیری شباب کی باتیں

ایسی ہیں جیسے خواب کی باتیں

۲۔ تشبیہ بعید یا غریب:

جس تشبیہ کی وجہ شبہ بہت غور و فکر کرنے کے بعد سمجھ میں آئے تو اسے تشبیہ بعید کہتے ہیں، مثلاً:

تشبیہ  رگ گل سے انہیں دوں تو ہے زیبا

ڈورے ہیں تری آنکھ کے اے رشک قمر سرخ

اس شعر میں آنکھ کے ڈوروں کو رگ گل سے تشبیہ دی گئی ہے۔ اس کی وجہ شبہ ہے خوبصورتی، باریکی اور سرخی۔

۳۔ تشبیہ مجمل:

جس میں وجہ شبہ کا ذکر نہ کیا گیا ہو، جیسے کسی بہادر کو شیر سے تشبیہ دینا وہ شیر جیسا ہے۔

۴۔ تشبیہ مفصل:

جس میں وجہ شبہ کا ذکر ہو، مثلا وہ شیر جیسا بہادر ہے۔

۵۔ تشبیہ جمع:

جس میں مشبہ ایک ہو اور مشبہ بہ کئی ہوں۔

۶۔ تشبیہ ملفوف:

جس میں کئی مشبہ اور کئی مشبہ بہ ہوں۔

۷۔ تشبیہ تسویہ:

جس میں مشبہ کئی ہوں اور مشبہ بہ ایک ہو۔

۸۔ تشبیہ موکد:

جس میں حرف شبہ نہ ہو۔

۹۔ تشبیہ مرسل:

    جس میں حرف شبہ موجود ہو۔ 

Post a Comment

0 Comments