میر حسن کے حالات زندگی | Meer Hasan ke halaat-e-zindagi

 میر حسن کے حالات زندگی

میر حسن دہلوی اردو کے عظیم شعرا کی فہرست میں شمار کیے جاتے ہیں۔ خصوصاً شعری کائنات میں انہیں مثنوی نگاری میں مقبولیت حاصل ہوئی۔ یہی نہیں بلکہ مثنوی نگاری میں انہیں بادشاہت بھی حاصل ہے۔

میر حسن کے آبا واجداد شہر ہرات کے رہنے والے تھے۔ شاہجہاں بادشاہ کے عہد میں ان کے پردادا میر امامی ہندوستان آئے اور یہیں مقیم رہے ۔ میر حسن کے والد صاحب کا نام میر غلام حسین ضاحک تھا۔ ان کے والد اردو فارسی کے ایک شاعر بھی تھے۔

میر حسن کی پیدائش ۱۷۲۷ ء کو پرانی دہلی کے ایک محلہ سید واڑہ میں ہوئی۔ ان کا پورا نام میر غلام حسن تھا۔ میر حسن نے ابتدائی تعلیم گھر پر اپنے والد صاحب سے حاصل کی ۔ چونکہ ان کے والد صاحب ایک شاعر بھی تھے اس لیے ان کا اثر میر حسن نے بھی قبول کیا اور ان کے اندر شاعری کا شوق پیدا ہوا ۔ بچپن میں ہی انھوں نے شعر گوئی کا آغاز بھی کر دیا۔ شروع میں میر حسن اپنے والد صاحب سے اپنی شاعری کی اصلاح بھی لیتے تھے ۔ اس کے بعد انہوں نے معروف و مشہور صوفی شاعر خواجہ میر دردؔ کی شاگردی اختیار کی ۔ خواجہ میر دردؔ کا اثر بھی ان پر مرتب ہوا۔

میر حسن نے گیارہ سال تک کی عمر دہلی میں گزاری۔ اس کے بعد اپنے والدصاحب کے ساتھ لکھنٔو، اس کے بعد فیض آباد ہجرت کر گئے۔ حالانکہ انہیں دہلی چھوڑ نا بہت ناگوار گزرا ۔ لیکن انہیں مجبوراً جانا پڑا کیونکہ جب دہلی پر  ہر طرف سے حملے ہو رہے تھے، قتل و غارت گری اور لوٹ مار کا بازار گرم ہوا اور تمام لوگ ذہنی اور معاشی انتشار کے شکار ہو گئے تو اہل دہلی کا دہلی میں زندگی بسر کرنا محال ہو گیا تو بہت سے لوگوں نے آس پاس کے علاقوں کی طرف ہجرت کرنا شروع کیا۔ اہل اردو ادب نے بھی فیض آباد، کانپور اور لکھنو وغیرہ جانا پسند کیا ۔ میر حسن دہلوی کے اہل و عیال بھی معاشی بد حالی کے شکار ہوئے تو انہیں دہلی چھوڑنا پڑا۔ میر حسن جب فیض آباد گئے تو وہاں نواب سالار جنگ بہادر کے دربارمیں ملازم ہوئے اور ان بیٹے نواب مرزا نوازش علی خان سردار جنگ کی مصاحبت میسر ہوئی۔ میر حسن ان کی مصاحبت میں تقریباً 11 سال رہے ۔ جب آصف الدولہ کا زمانہ آیا تو انہوں نے لکھنو کو اپنا دارالسلطنت بنایا۔ اس لیے میر حسن کو بھی لکھنٔو کا رخ کرنا پڑا۔ پھر میر حسن لکھنٔو میں ہی مقیم ہے اور وہیں ان کا انتقال ۱۷۸۶میں ہوا۔

میر حسن کے چار بیٹے تھے۔ ان میں تین شاعر تھے ۔ ان کے تین بیٹیوں کے نام جنہوں نے شعر گوئی میں حصہ لیا میر مستحن خلیق، میر محسن محسن اور میرا حسن خلق ہے ۔ ان میں میر مستحسن خلیقؔ کو کافی شہرت ملی ۔

میر حسنؔ ایک عظیم شاعر اور  نثر نگار تھے۔ شاعری کے مختلف اصناف پر انہوں نے طبع آزمائی کی ۔ لیکن ان کو مقبولیت مثنوی نگاری میں ملی۔ میر حسن کی پہلی مثنوی ’’رموز العارفین‘‘ ہے جو تصوف اور اخلاق کے موضوع پر مبنی ہے۔ اسے انہوں نے ۱۷۷۴ ء میں لکھی۔ ۱۷۷۴ اور  ۱۷۷۸ء کے درمیانی عرصے میں لکھا گیا ان کا تذکرہ  ’’تذکرہ شعرائے اردو ‘‘  بھی قابل ذکر ہے ۔ اسے انہوں نے قیام فیض آباد کے دوران مکمل کیا ۔ مثنوی گلزار ارم بھی میر حسن کی مثنوی ہے جو ۱۷۷۸ء میں مکمل ہوئی ۔ میر حسن کا سب سے آخری کار نامہ مثنوی " سحر البیان " ہے ۔ یہ ان کا ایک لازوال کارنامہ ہے۔ اس مثنوی کو بے حد مقبولیت ملی ۔ میر حسن نے اس کے علاوہ اس سے پہلے اور بھی کئی مثنویاں لکھیں لیکن ان کو اتنی شہرت نہ مل سکی۔ ان کی کل مثنویوں کی تعداد بارہ ہے ۔ میر حسن کے کلیات میں سات قصیدے بھی شامل ہیں۔ یعنی میر حسن نےقصیدہ گوئی کی روایت میں بھی اضافہ کیا ۔

Post a Comment

0 Comments