میر حسن کی مثنوی نگاری | Meer Hasan ki masnavi nigari

میر حسن کی مثنوی نگاری

میر حسن اردو کائنات کے ایک اہم اور عظیم مثنوی نگار کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے مثنوی کی صنف کو آسمان کی بلندی عطا کی ۔ مثنوی نگاری میں میر حسن سے پہلے اور ان کے بعد کوئی دوسرا ان کے مرتبے کو نہ پہنچ سکا۔ حالانکہ دیکھا جائے تو اردو مثنوی کی روایت دکن میں قائم ہوئی اور وہاں اسے فروغ بھی حاصل ہوا۔ نصر تی اور ملا و جہی جیسے شاعروں نے مثنوی کی روایت کو مستحکم کیا ۔ جب شمالی ہند میں مثنوی کی روایت قائم ہوئی تو یہاں کے شعرا نے بھی اس روایت کو فروغ عطا کیا ۔ فائزؔ ، میرؔ، نسیمؔ اور شوقؔ وغیرہ نے مثنوی کی صنف کو بلند مقام عطا کیا ۔ ان تمام مثنوی نگاروں میں میر حسؔن سب سے زیادہ چمکدار ستارے کی مانند ہیں ۔ میر حسنؔ نے کل ۱۲ مثنویاں لکھیں۔ ان میں رموز العارفین، گلزار ارم اور سحر البیان کو مقبولیت حاصل ہوئی ۔ لیکن میر حسنؔ اپنی شاہکار اور لازوال مثنوی سحر البیان کی بدولت کافی مشہورومقبول ہوئے۔

میر حسن نے مثنوی سحر البیان 1784-85 ء میں لکھی۔ لیکن اس کی اشاعت فورٹ ولیم کالج میں 1805 میں ہوئی ۔ یہ مثنوی قصہ بے نظیر و بدرمنیر کے نام سے بھی مشہور ہے ۔ یہ مثنوی تقریباً دو ہزار اشعار پر مشتمل ہے۔ اس مثنوی کی کہانی مختلف کہانیوں، قصوں اور داستانوں سے لی گئی ہے ۔ لیکن میر حسن نے ان کہانیوں کو اتنی خوبی سے بیان کیا ہے کہ وہ ایک کہانی معلوم ہوتی ہےاور طبع زاد کی حیثیت رکھتی ہے۔

میر حسن کی مثنویاں خوبیوں کا مجموعہ ہے۔ خصوصاً سحر البیان ہراعتبارسے مکمل مثنوی نظر آتی ہے۔ یہاں ان مثنویوں کو مدنظر رکھتے ہوئے میر حسن کی مثنوی نگاری کے مختلف اہم پہلوؤں کا جائزہ لینا  مناسب ہوگا تاکہ ان سے متعلق تمام باتیں سامنے آسکیں۔

کردار نگاری:

میر حسن نے اپنی مثنویوں میں کردار نگاری کے بہترین نمونے پیش کیے ہیں ۔ خصوصاً مثنوی سحر البیان میں میر حسن کی کردار نگاری کا بہتر اندازہ ہوتا ہے ۔ بلکہ کردار نگاری سحر البیان کی خاص خوبی ہے۔ یہ مثنوی اپنے لازوال کردار بے نظیر اور بدرمنیر کے نام سے بھی جانی جاتی ہے۔ اس مثنوی کے چار کردار بے نظیر ، بدرمنیر، نجم النسا اور ماہ رخ قابل ذکر ہیں جو بے حد جاندار اور متحرک ہیں۔

مکالمہ نگاری:

میر حسن کو مکالمہ نگاری پر مہارت حاصل تھی۔اس کی بہترین مثالیں مثنوی سحر البیان میں موجود ہیں، انھوں نے دلکش مکالموں کے ذریعے اس مثنوی کو کافی دلچسپ بنایا ہے ۔

 منظر نگاری:

            میر حسن کی مثنوی نگاری کی ایک خاص خوبی منظرنگاری ہے ۔ اس سلسلے میں انہوں نے اپنی مہارت  کا ثبوت پیش  کیا ہے۔ خاص طور پر مثنوی سحر البیان   کا مطالعہ کرنے سے  پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے اپنی تمام تر صلاحتیوں کا استعمال منظر نگاری میں کیا ہے ۔ اس مثنوی میں انہوں نے اس خوبصورتی سے منظر کشی کی  ہے کہ تمام مناظر قاری کے سامنے آجاتے ہیں۔ اس کے ذریعے انہوں نے اپنی مثنوی میں دلکشی ، جاذبیت اور اثر انگیزی پیدا کی ہے۔  مثال کے طور پر :

درختوں کی کچھ چھاؤں اور کچھ وہ دھوب

وہ دھانوں کی سبزی وہ سرسوں کا روپ

وہ لالے کا عالم ہزارے کا رنگ

وہ آنکھوں کے ڈورے نشے کی ترنگ

گلابی سے ہو جانا دیوارو در

درختوں سے آنا شفق کا نظر

وہ چادر کا چھٹنا وہ پانی کا زور

ہراک جانور کا درختوں پر شور

تفصیلی بیان :

میرحسن کی مثنویوں کی ایک خوبی یہ ہے کہ میر حسن نے جو واقعہ یا منظر پیش  کیا ہے اس میں تفصیل کا سہارا لیا ہے ۔ یہ قاری کے لیے مفید بھی ثابت ہوتا ہے کیونکہ قاری تفصیلات کے ذریعے واقعے یا منظر کےہر  ایک پہلو سے واقف ہو جاتا ہے۔

جزئیات نگاری :

            میر حسن کی مثنویوں کی ایک خوبی یہ ہے کہ انہوں نے جزئیات نگاری سے بھی کام لیا ہے ۔میر حسن نے جس واقعے کو پیش کیا ہے یا جس منظر کی تصویر کشی کی ہے اس کے تمام جزئیات کو سامنے رکھا ہے اور فنکارانہ طور پر ہر ایک پہلو کو پیش کیا ہے ۔

جذبات نگاری :

میر حسن نے اپنی مثنویوں میں جذبات نگاری سے بھی کام لیا ہے ۔ یہ پہلو بھی ان کی شاعری کو دلکش اور پر اثر بناتا ہے۔ مثنوی سحر البیان میں جذبات نگاری کے عمدہ نمو نے موجود ہیں۔ انھوں نے قدم قدم پرکرداروں کے جذبات کی عکاسی کی ہے۔ مثلاً شہزادہ کی جدائی میں بدر منیر کی حالت کی عکاسی کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

دوانی سی ہرسو وہ پھرنے لگی

درختوں میں جا جاکے گرنے لگی

واقعہ نگاری :

میرحسن کو واقعہ نگاری میں بھی مہارت حاصل تھی۔ ان کی مثنویوں میں واقعہ نگاری کے بہترین نمونے موجود  ہیں۔ انہوں نے جس بھی واقعے کو پیش کیا ہے وہاں میر حسن نے اپنی مہارت کا ثبوت پیش کیا ہے۔ میرحسن نے واقعہ نگاری کے تمام تر پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے واقعات کو پیش کیا ہے ۔ خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے اس میں جزئیات نگاری سے بھی کام لیا ہے۔ مذکورہ مثنویوں کے علاوہ میر حسن کی مثنویاں نقل کلاونت ، نقل زن فاحشہ ، ہجو قصائی، نقل قصائی ، مثنوی شادی آصف الدولہ، رموز العارفين . مثنوی ہجو حویلی، مثنوی در تہنیت عید، مثنوی درخوان نعمت ، مثنوی قصہ جوہر قابل ذکر ہیں ۔ ان تمام مثنویوں کا مطالعہ بتاتا ہے کہ میر حسن کی مثنویوں میں مضامین کا تنوع ہے ۔

انہوں نے عشق کے موضوع کے علاوہ اخلاقیات، تصوف، حکمت اور دنیا کی بے ثباتی وغیرہ کو بھی موضوع بنایا ہے ۔ خصوصاً اخلاقیات کا موضوع قاری کو کافی متاثرکرتا ہے ۔ جہاں عشق و محبت کو موضوع بنایا گیا ہے وہاں بھی اخلاقی درس موجود ہے۔

زبان و بیان :

میر حسن نے اپنی مثنویوں میں دلکش اور پرکشش زبان کو استعمال میں لایا ہے۔ انہوں نے بے حد سادگی اور نفاست کے ساتھ الفاظ کا استعمال کیا ہے ۔ ان کے الفاظ عام فہم اور سادہ ہیں ۔ انہوں نے رائج تشبیہات و استعارات،  محاورات و علامات کے ذریعے بھی اپنی مثنوی کو پراثر بنایا ہے۔

میرحسن کی ایک خوبی بیان کی خوبصورتی ہے۔ انہوں نے تمام کیفیات کو بہت ہی عمدہ اور دلکش انداز میں بیان کیا ہے۔ ان کی زبان و بیان میں بناوٹ کا شائبہ تک نہیں ہوتا ۔ انہوں نے اپنے بیان میں صفائی ، سادگی اور بے ساختہ پن کو جگہ دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی ان کی مثنوی سحر البیان کی اتنی ہی مقبولیت ہے جتنی پہلے تھی۔

بہر حال اس طرح میر حسن نے مثنوی نگاری میں حصہ لے کر اردو مثنوی کی روایت کو بلندی عطا کی۔ مثنوی نگاری میں میر حسن کے اضافے لازوال ہیں ۔ مثنوی نگاری کی روایت میں ان کا نام ہمیشہ سر فہرست رہے گا کیونکہ انھوں نے اس فن کو ترقی کی آخری منزل تک پہنچایا ۔

Post a Comment

0 Comments