مثنوی دریائے عشق کا جائزہ | Masnavi dariya-e-ishq ka jayza

مثنوی  دریائے عشق کا جائزہ

مثنوی دریائے عشق میر تقی میر کی ایک لازوال مثنوی ہے جس میں انہوں نے مشرق کو موضوع بنایا ہے ۔ اس میں میر کا تصور عشق واضح طور پر نظر آتا ہے ۔اس میں انہوں نے عشق کے منفی اثرات کو دکھانے کی کوشش کی ہے۔ اس میں میر نے جس جذبات نگاری کا سہارا لیا ہے وہ بھی قاری کو متوجہ کرتی ہے۔ میر نے بے حد سادہ اور فطری انداز میں یہ مثنوی لکھی ہے۔ یہ مثنوی ایک نوجوان کی محبت کی کہانی پر مبنی ہے۔ کہانی شروع کرنے سے پہلے میر نے عشق کے موضوع پر چند ابتدائی اشعار لکھے ہیں جو عشق اور اس کے منفی اثرات کو عیاں کرتے ہیں۔ مثلاً :

کام میں اپنے عشق پکا ہے

ہاں یہ نیرنگ ساز پکا ہے

جس کو ہوا اس کا التفات نصیب

ہے وہ مہان چند روزہ غریب

بہر حال اس طرح میر ان تمہیدی اشعار کے ذریعے مثنوی کا آغاز کرتے ہیں۔ اس مثنوی میں میر نے ایک عاشق کی محبت کی درد بھری کہانی بیان کی ہے۔ وہ نوجوان بلند قد کا تھا اور جمال میں بھی یکتا تھا۔ اس کے اندر عشق کے جذبات بھرے پڑے تھے۔

لیکن وہ بے محبوب تھا۔ اس کے اندر عشق و محبت کا شعلہ دن بدن بھڑکتا جا رہا تھا۔ ایک دن گھبراہٹ کے عالم میں باہر نکلتا ہے اور تفریح کی غرض سے باغ کی طرف جاتا ہے۔ باغ سے لوٹتے وقت  اس کی نگاہ ایک گھر پر پہنتی ہے جہاں اسے ایک حسین و جمیل لڑکی نظر آتی ہے ۔ اسے دیکھتے ہی وہ نوجوان اس کی محبت کا اسیر ہو جاتا ہے۔ اس کا عشق جنوں کی کیفیت اختیار کر لیتا ہے۔ اور وہ بے چینی کے عالم میں مبتلا ہو جاتا ہے۔

ہوش جاتا رہا نگاہ کے ساتھ

صبر رخصت ہوا اک آہ کے ساتھ

بے قراری نے کج ادائی کی

تاب وطاقت نے بے وفائی کی

اس طرح اس کی طبیعت نے اس کے اندر جنون پیدا کر دیا تھا۔ جب کوئی اسے سمجھاتا تو وہ بے اختیار رونے لگتا ۔ ایک دن اس کا صبر ٹوٹتا ہے اور وہ جا کر محبوب کے دروازے پر بیٹھ جاتا ہے ۔ اس کے بعد سب کو پتہ چل جاتا ہے کہ وہ اس لڑکی سے عشق کرتا ہے۔ لڑکی کے گھر والوں کو یہ بات پسند  نہ آئی ۔ سارے لوگ اس کے قتل پر آمادہ ہو گئے۔

ایک نے سخت کہہ کے تنگ کیا

ایک نے آکے زیر سنگ کیا

ایک آیا تو ہاتھ میں شمشیر

ایک بولا کہ اب ہے کیا تاخیر

آخر جب کوئی حل نہ نکل سکا تو بدنامی سے بچنے کے لیے اور اس سے پیچھا چھڑانے کے لیے یہ منصوبہ تیار ہوا کہ لڑکی کو دریا پار رشتے داروں کے گھر چھوڑ دیا جائے ۔  بہر حال اسے دایہ کے ساتھ بھیج دیا گیا۔ گھر سے نکلتے ہی عاشق نے دیکھ لیا اور وہ بھی اس کے ساتھ ہو لیا۔ راستے میں جب دریا کو پار کرنا ہوا تو سب ایک ہی کشتی پر سوار ہوئے ۔ جب کشتی بیچ دریا میں پہنچی تو دایہ نے اس لڑکی کی جوتی کو اسے دکھاتے ہوئے دریا میں پھینک دیا اور اس نوجوان عاشق سے بولی کہ اگر تجھے غیرت ہے تو اس کی جوتی کو لے کر آ۔نو جوان اس مکار دایہ کی چال میں پھنس کر دریا میں چھلانگ لگا دیتا ہے اور مر جاتا ہے۔ اس طرح دایہ اپنی چال میں کامیاب ہو جاتی ہے۔

کچھ دن بعد گھر لوٹنے کا ارادہ بنتا ہے کہ اب تو واپس جا سکتے ہیں، کیونکہ لڑکی کا اب کوئی سد راہ نہیں۔ بہر حال دایہ اس لڑکی کو لے کر واپس لوٹتی ہے۔ جب در یا سامنے آتا ہے تو لڑکی اس دایہ سے کہتی ہے کہ جب کشتی اس مقام پر پہنچے جہاں عاشق نے جان دی تھی تو مجھے بتانا۔ میں اس جگہ کی لہروں کو دیکھنا چاہتی ہوں۔ جب کشتی اس مقام تک پہنچی تو دایہ نے اسے بتایا ۔ یہ سنتے ہی وہ لڑکی بھی دریا میں کود جاتی ہے۔

سنتے ہی یہ کہاں کہاں کر کر

گرپڑی قصد ترک جان کر کر

اس طرح وہ لڑکی بھی عاشق کی خاطر اپنی جان دے دیتی ہے۔ بعد میں جب جال پھینک کر کے اسے نکالا جاتا ہے تو وہ لڑکی اس عاشق سے ہم آغوش کی حالت میں ملتی ہے۔

نکلے باہم ولے موئے نکلے

دونوں دست وبغل ہوئے نکلے

 ربط چسپاں بہم ہو ہویدا تھا

مر گئے پر بھی شوق پیدا تھا

بہر حال یوں ان دونوں کے عشق کی کہانی کا اختتام دور ناک موت پر ہوتا ہے۔ اس طرح یہ عشقیہ مثنوی اپنے اختتام کو پہنچتی ہے۔ آخر میں میر لکھتے ہیں کہ یہ عشق ایک فتنہ ہے جس سے ہر کوئی واقف ہے:

 میر اب شاعری کو کر موقوف

عشق ہے ایک فتنۂ معروف

Post a Comment

0 Comments