میر امن کی نثر نگاری | Meer amman ki nasr nigari

میر امن کی نثر نگاری

میر امن کا تعارف:

میر امن دہلوی کا نام میر امان اللہ تھا اور امن ان کا تخلص۔ پہلے انہوں نے اپنا تخلص لطف رکھا تھا۔ میرامن دہلی میں پیدا ہوئے۔ ان کی تاریخ پیدائش میں اختلاف ہے۔ محققین کے نزدیک ان کی پیدائش ۱۷۵۰ کے آس پاس محمد شاہ کے عہد میں ہوئی۔ بعض لوگوں نے ۱۷۳۲ کو خاص کیا ہے اور کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ ۱۷۴۷ میں پیدا ہوئے۔ احمد شاہ ابدالی کے حملے کی وجہ سے میر امن کے خاندان نے دہلی چھوڑ کر پٹنہ کا رخ کیا۔  میر امن وہاں سے کلکتہ گئے تاکہ انہیں روزگار مل سکے۔ وہاں نواب دلاور جنگ کے چھوٹے بھائی میر محمد کاظم  خاں کو تعلیم دینے کےلیے مقرر کیے گئے۔ اسی دوران ان کی ملاقات میر بہارد علی حسینی سے ہوئی۔  ان کے ذریعہ میرامن فورٹ ولیم کالج پہنچے  اور انہیں اس کالج میں ملازمت حاصل ہوئی۔ میر امن اس کالج کے ہندوستانی شعبہ میں ۴مئی ۱۸۰۱ کو ۴۰ روپے مہینے کے حساب سے منشی کے طور پر مقرر کیے گئے۔ میر امن نے اس کالج سے جڑ کر ’’باغ و بہار‘‘۱۸۰۲ میں لکھی۔  یہ کتاب امیر خسرو کی فارسی داستان ’’قصہ چہار درویش ‘‘کا آسان اردو ترجمہ ہے۔ اسے انہوں نے جان گلکرسٹ کی فرمائش پر لکھی۔ میر امن نے اس کتاب کے ذریعہ سادہ سلیس اور آسان زبان و اسلوب کی بنیاد ڈالی۔ میر امن اپنے اسی اسلوب کی وجہ سے کافی مقبول ہوئے۔ اردو ادب میں اپنی اسی کتاب کی بدولت میر امن اعلیٰ مقام رکھتے ہیں۔ اسی کالج سے ہی جڑ کر  انہوں نے دوسری کتاب ’’گنج خوبی‘‘ لکھی جوکہ ملاحسین واعظ کاشفی کی کتاب ’’اخلاق محسنی‘‘ کا اردو ترجمہ ہے۔ لیکن اس کتاب کو اتنی مقبولیت نہ ملی۔ میر امن اس کالج سے پانچ سال تک جڑے رہے۔ چونکہ انہوں نے  ایک انگریز طالب علم کو تعلیم دینے سے انکار کردیا تھا اس لیے انہیں ۱۹۰۶ میں کالج سے نکال دیا گیا تھا۔ میر امن کی تاریخ وفات میں بھی اختلاف ہے۔ کچھ لوگوں کے مطابق ۱۸۰۶ اور زیادہ تر لوگوں کے مطابق ۱۸۰۸ کو کلکتہ میں ان کا انتقال ہوا۔

باغ و بہار کا تعارف:

باغ و بہار میر امن کی معروف و مشہور داستانوی کتاب ہے۔ اسے انہوں نے ۱۸۰۲ میں لکھی اور پہلی بار ۱۸۰۴ میں یہ شائع ہوئی۔ یہ داستان امیر خسرو کی فارسی  داستان ’’قصہ چہار درویش‘‘  کا اردو ترجمہ ہے۔ اس سے پہلے میر عطا حسین خاں تحسین نے اس داستان کا ترجمہ ’’نوطرز مرصع ‘‘ کے نام سے کیا جس کی زبان بہت مشکل ہے۔ اس کے بعد میر امن نے اس کا آسان اردو ترجمہ کیا۔ مولوی عبدالحق کا ماننا ہے کہ میر امن کی اس کتاب کا اصل ماخذ ’’نوطرز مرصع‘‘ ہے۔

باغ و بہار کی خصوصیات:

باغ و بہار کی خصوصیت یہ ہے اس میں ہندوستانی تہذیب و معاشرت کا عکس پیش کیا گیا ہے۔ خاص طور سے میر امن نے دہلی کی تہذیب کی عکاسی کی ہے۔ اس کتاب سے اس وقت کی دہلوی تہذیب، معاشرت،طرز زندگی، شادی بیاہ، رسم و رواج اور روایات سے ہمیں واقفیت  حاصل ہوتی ہے۔اسی طرح شاہی دربار، نوابوں کی حویلیاں، مختلف موسمی پھل اور مختلف کھانوں کا ذکر اس داستان میں موجود ہے۔

میر امن کی نثر نگاری

۱۔زبان کی سادگی:

            میر امن کی خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے اردو نثر میں آسان، سادہ اور عام فہم زبان کی بنیاد ڈالی ہے۔ میر امن سے پہلے سادہ اور آسان زبان میں لکھنے کا رواج نہ تھا۔ بلکہ مشکل سے مشکل عبارت لکھی جاتی تھی جو کہ اس وقت مہارت کی دلیل تھی۔ لیکن میر امن نے آسان زبان کا استعمال کرکے اردو کو سادگی کا راستہ دکھایا جس کو بعد میں غالبؔ وغیرہ نے بھی اختیار کیا۔

۲۔ زبان کی لطافت:

            میر امن کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے عبارت کو پر لطف بناکر پیش کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریر پڑھ کر قاری کو اکتاہت کا احساس نہیں ہوتا  بلکہ قاری مزے لے لے کر پڑھتا جاتا ہے۔

۳۔ الفاظ کا استعمال:

میر امن کا کمال یہ ہے انہوں نے موقع و محل کے اعتبار سے مناسب الفاظ کا استعمال کیا ہے۔ میر امن کے پاس بہت سے الفاظ ہوتے ہیں۔ پھر ان الفاظ کی جہاں ضرورت محسوس ہوئی وہاں انہوں نے استعمال میں لایا۔

۴۔ لفظوں کی تکرار یا تابع مہمل:

میر امن نے لفظوں کی تکرار اور تابع مہمل کے ذریعہ بھی اپنی نثر کو خوبصورت بنایا ہے۔ یہ دونوں چیزیں ان کے یہاں کثرت سے نظر آتی ہیں۔ مثال کے طور پر گھر گھر، پل پل، روتا دھوتا، لڑکے بالے وغیرہ۔

۵۔ متروک الفاظ:

میر امن کے یہاں ایسے الفاظ کی بھی کثرت ہے جو پہلے بولے اور لکھے جاتے  تھے لیکن آج ان الفاظ کا بولنا اور لکھنا چھوڑ دیا گیا ہے۔ مثلا کبھو، کدھو اور ایدھر اودھر وغیرہ۔

۶۔ عربی و فارسی کے الفاظ:

            میر امن نے ضرورت کے اعتبار سے عربی اور فارسی  کے الفاظ کو بھی بہت خوبصورتی سے استعمال میں لایا ہے۔ ایسے الفاظ مشکل نہیں ہوتے ہیں بلکہ وہ عام فہم ہوتے ہیں۔

۷۔ ہندی الفاظ:

            میر امن کی نثر کی ایک خوبی یہ ہے انہوں نے ہندی الفاظ کا بھی خوبصورت استعمال کیا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ عربی اور فارسی کے آسان الفاظ جو اردو میں رائج ہیں ایسے الفاظ کی جگہ پر انہوں نے ہندی الفاظ کو ترجیح دی ہے۔مثلاً خوشی کی جگہ پر آنند، پیام کی جگہ پر سندیسہ وغیرہ۔

۸۔تشبیہات و استعارات:

            میر امن نے تشبیہات و استعارات جیسے شعری وسائل کا بھی سہارا لیا ہے۔اس کے ذریعہ بھی انہوں نے اپنی نثر کو پر اثر بنایا ہے۔ انہوں نے مناسب ، عام فہم اور رائج تشبیہات و استعارات کو ہی جگہ دی ہے۔ اس کے علاوہ دیگر شعری وسائل بھی ان کی نثر کو دلکش بناتے ہیں۔

۱۰۔ بات چیت کا انداز و اسلوب:

            میر امن نے اپنی تحریر میں ایسا انداز اپنایا جس سے محسوس ہوتا ہے کہ ہم کہانی کو پڑھ نہیں رہے ہیں بلکہ سن رہے ہیں۔ یہ میر امن کی خاص خوبی تھی جو قاری کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔

            بہر حال اس طرح ان تمام وسائل کے ذریعہ میر امن نے اپنی نثر کو مزین کیا اور سادگی کی بنیاد ڈالی۔ انہوں نے مشکل پسندی کی روایت سے ہٹ کر اپناالگ راستہ نکالا جس پر غالبؔ،سرسید  حالی،وغیرہ نے چلنا پسند کیا۔

ڈاکٹر مطیع الرحمٰن                                                                          

Post a Comment

0 Comments