ملا وجہی اور ان کی نثر نگاری | Mulla Wajhi aur unki nasr nigari

ملا وجہی اور ان کی نثر نگاری

ملا وجہی کا مختصر تعارف:

            ملا وجہی کا پورا نام ملا اسد اللہ وجہی تھا۔ اسد اللہ ان کا نام اور وجہی تخلص تھا۔ ان کی تاریخ پیدائش   مختلف مقامات پر ۱۵۵۵، ۱۵۶۶اور ۱۵۷۶ لکھی گئی ہے۔ ان میں ۱۵۶۶ کو زیادہ لوگوں نے صحیح مانا ہے۔ ملا وجہی قطب شاہی دور کے ایک بڑے شاعر اور نثر نگار تھے۔ انہوں نے قطب شاہی کے چار بادشاہوں کا زمانہ دیکھا۔ ان کی پیدائش سلطان قطب شاہ کے زمانے میں گولکنڈہ، دکن میں ہوئی۔ ان کی تعلیم و تربیت بھی اچھے استادوں سے ہوئی۔ ابراہیم قطب شاہ کے بعد انہوں نے محمد قلی قطب شاہ،  محمد قطب شاہ اور عبد اللہ قطب شاہ کا زمانہ بھی دیکھا۔ محمد قلی قطب شاہ کے زمانے میں انہیں کافی ترقی ملی۔ بعد میں ملا وجہی ان کے دربار سے بھی جڑ گئے اور محمد قلی قطب شاہ نے ان کی سرپرستی کی۔  یہاں تک کہ ان کی صلاحیت اور قابلیت کے مدنظر انہوں نے ملا وجہی کو ملک الشعرا کا خطاب بھی عطا کیا۔ اسی زمانے میں انہوں نے قلی قطب شاہ اور مشتری کی محبت کی کہانی مثنوی کی شکل میں لکھی جو ’’ْقطب مشتری‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔

جب محمد قلی قطب شاہ کا انتقال ہوگیا اور ان کی جگہ پر محمد قطب شاہ تخت نشین ہوئے تو ملا وجہی کو پریشانیوں کو سامنا کرنا پڑا۔ کیونکہ محمد قطب شاہ  کو شعر و شاعری سے لگاؤ نہ تھا، وہ خدا کی عبادت میں زیادہ اوقات صرف کرتے تھے۔ محمد قطب شاہ کے بعد جب عبداللہ قطب شاہ کا زمانہ آیا تو ملا وجہی کو پھر سے عزت ملی اور ان کی سرپرستی ہوئی۔ عبداللہ قطب شاہ کے زمانے میں ہی انہوں نے اپنی معروف  و مقبول کتاب ’’سب رس (۱۶۳۵)‘‘ لکھی۔ اور یہ کتاب انہوں نے عبداللہ قطب شاہ کی فرمائش پر ہی لکھی تھی۔

اس طرح ان بادشاہوں کے زمانے میں ملا وجہی نے اردو شاعری اور نثر دونوں میدانوں میں اپنی شناخت قائم کی۔ شاعری میں انہوں نے ’’قطب مشتری ‘‘ کے علاوہ قصیدے، رباعی، حمد، نعت، منقبت، مرثیہ اور غزلیں بھی لکھیں۔ اور اردو نثر میں ملا وجہی کا عظیم کارنامہ ’’سب رس‘‘ ہے جو اردو ادب کی پہلی نثری کتاب کی حیثیت رکھتی ہے۔جس طرح تاریخ پیدائش میں اختلاف ہے اسی طرح ان کی تاریخ وفات میں بھی اختلاف ہے۔ محققین کے اندازے کے مطابق ۱۶۵۵ اور ۱۶۷۲ کے درمیان ان کی وفات ہوئی۔ کچھ لوگ ۱۶۵۹ متعین کرتے ہیں۔

سب رس کا مختصر تعارف:

سب رس ایک داستان کی کتاب ہے جسے اردو نثر کی تاریخ میں کافی  اہمیت حاصل ہے۔ وجہی نےاسے عبداللہ قطب شاہ کی فرمائش پر ۱۶۳۵ میں لکھی۔ اردو نثر کی روایت میں اسے اہمیت اس لیے بھی حاصل ہے کیونکہ یہ ادب کے اعتبار سے اردو نثر کی پہلی کتاب ہے۔ اس میں شہزادہ دل اور شہزادی حسن کے عشق کی کہانی کو بیان کیا گیا ہے۔ اس میں ملا وجہی نے جو قصہ ، حسن و عشق کی باتیں اور دوسرے معاملات کو پیش کیا ہے اسے بہت خوبصورت ، انوکھے اور دلچسپ انداز میں پیش کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس زمانے میں اسے بہت مقبولیت ملی۔ لوگ اسے بہت دلچسپی سے پڑھا کرتے تھے۔

ملا وجہی کی نثر نگاری

زبان و بیان:

سب رس کی ایک خصوصیت یہ ہے وجہی نے اس میں صاف، رواں اور انوکھی زبان کا استعمال کیا ہے۔ ان کے لکھنے کے انداز میں روانی اور سلاست ہے۔ لیکن ساتھ ہی کہیں کہیں انہوں نے قدیم اور غیر مستعمل الفاظ کا بھی استعمال کیا ہے جو قاری کے لیے اجنبی اور غیر مانوس ہوتے ہیں۔ اس میں دکنی الفاظ بھی زیادہ ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے فارسی الفاظ کا استعمال کرکے عبارت کو مسجع و مقفیٰ بنانے کی کوشش کی ہے۔ اس طرح انہوں نے اس داستان میں مقامی محاوروں کا بھی استعمال کیا ہے جو  آج کل مستعمل نہیں ہیں۔

اگرچہ اس داستان میں کچھ خامیاں ہیں لیکن تاریخی اعتبار سے  اس کی  اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ یہ اس وقت کی کتاب  ہے جب اردو زبان میں ابھی لکھنے کا آغاز ہوا تھا  اور اردو کو زیادہ ترقی نہیں ملی تھی۔ ملا وجہی نے اردو نثر میں قدم رکھ کر یہ داستانوی کتاب لکھ کر اردو ادب کے لیے راستہ ہموار کیا۔

دکنی نثر:

اس کتاب سے پتہ چلتا ہے کہ دکنی نثر کیسی ہوتی تھی اور اس وقت لکھنے کا انداز کیسا تھا۔ اس کتاب سے اس بات کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت ہندی، فارسی اور سنسکرت کے الفاظ کو ملا کر بولا اور لکھا جاتا تھا۔وجہی کی اس کتاب میں دکنی الفاظ کے علاوہ ہندی اور سنسکرت کے الفاظ بہت ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی زبان کو ہندی کہا ہے۔

املا و تلفظ:

املا اور تلفظ کے اعتبار سے سب رس کو دیکھیں تو اس  میں  یہ دونوں بالکل الگ نظر آتے ہیں۔آج جو املا اور تلفظ عام ہے اس سے وہ بالکل الگ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت اردو زبان پوری طرح بن کر تیار نہیں ہوئی تھی۔ بلکہ اپنے پیدائشی مرحلے میں تھی۔ اور نہ ہی اس وقت زبان کا کوئی قاعدہ تیار تھا۔ بلکہ جو جیسا عوامی زبان بولتا تھا ویسا ہی لکھتا بھی تھا۔ اسی طرح ملا وجہی نے بھی اس وقت کی بولی جانے والی زبان کو اپنایا اور دکنی ، ہندی ، فارسی اور سنسکرت وغیرہ الفاظ کو استعمال میں لاکر اس داستان کی تخلیق کی۔

ہندوستانی تہذیب کی عکاسی:

اس داستان کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ ملا وجہی نے اس میں اپنے دور کے ہندوستان اور ہندوستانی تہذیب  وتمدن کی عکاسی کی ہے۔ یعنی ان کی اس داستان میں جگہ جگہ ہندوستانی تہذیب کا عکس موجود ہے۔جس سے ہم اس وقت کی تہذیب کے بارے میں بھی اگاہ ہوتے ہیں۔

بہر حال اس طرح ملا وجہی نے ’’سب رس‘‘ لکھ کر اردو ادب کی تاریخ میں ایک اہم اضافہ کیا۔ انہوں نے اس داستان  کے ذریعہ اردو ادب کے لیے راستہ ہموار کیا جس پر چل کر بعد میں اردو ادب کےقلم کاروں نےاردو ادب کو فروغ بخشا۔ گویا یہ داستان اردو ادب کے لیے بے حد مفید ثابت ہوئی۔ اس لیے ملا وجہی کا نام اردو ادب کی تاریخ میں نمایاں ہے اور  ہمیشہ نمایاں رہے گا۔

ڈاکٹر مطیع الرحمٰن                                                                          

Post a Comment

0 Comments