ناسخ کی غزل گوئی | Nasikh ki ghazal goi

ناسخ کی غزل گوئی

شیخ امام بخش ناسخ1772ء کو فیض آباد میں پیدا ہوئےٍ اور 1838ء میں ان کی وفات ہوئی۔ ناسخ دبستانِ لکھنئو کے بانی مانےجاتے ہیں۔ انہوں نے دبِستانِ لکھنئو کی شاعری کو نیا رنگ و آہنگ عطا کیا۔ ناسخ کی غزل گوئی ایک اہم موضوع ہے۔ کیونکہ ناسخ اردو شاعری میں ایک نئے اسلوب کے مُوجِد مونے جاتے  ہیں۔یہاں ناسخ کی غزل گوئی کے مثبت و منفی دونوں پہلوؤں کو دیکھنا مقصود ہے۔ بہر حال دیکھا جائے تو ناسخ کا سب سے بڑا کارنامہ اصلاحِ زبان ہے۔ انہوں نے زبان کی صفائی پر زور دینے کو اہمیت دی ہے۔ انہوں نے ہندی الفاظ کو نکال کر اس کی جگہ پر فارسی اور عربی کے الفاظ کو جگہ دی ۔ اسی طرح پرانی تراکیبں جو زبان پر عام تھیں ناسخ نے ان تراکیب کو بھی تَرک کیا۔ اس طرح ناسخ نے زبان کے حوالے سے جو اصول قائم کیے ان کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں ان کے شاگردوں نے ان کی پیروی کی۔ یہاں تک کہ دہلی والوں نے بھی ان کے نقش قدم کو اپنایا۔ لیکن زبان کی اصلاح اور صحت پر ضرورت سے زیادہ زور دینے کی وجہ سے خیالوں کی طرف توجہ کم ہوگئی اور بناوٹی و معمولی خیالات کو شاعری میں جگہ ملنے لگی۔

ناسخؔ اپنے عہد کے معروف و مقبول شاعر تھے۔ شعر و شاعری کے میدان میں ایک لمبے وقت تک ان کی حکمرانی رہی۔ انہوں نے اردو غزل کو ایک نیا انداز عطا کیا۔ انہوں نے دہلی کے شاعروں کے لب و لہجہ اور لفظیات سے ہٹ کر شاعری کی جسے لکھنئو میں بہت پسند کیا گیا۔ اس طرح لکھنئو میں ان کی دھوم مچ گئی۔

الفاظ و استعارات کا استعمال :

ناسخؔ اپنی شاعری میں نئے الفاظ اور استعارے اختیار کرتے ہیں۔ ان کےیہاں لفظوں کی اہمیت زیادہ ہے، معنی ان کے یہاں دوسرے درجے پر ہے۔ وہ اپنے خیالات کو پیش کرنے میں بھاری بھرکم الفاظ کا استعمال کرتے ہیں اور انہیں لفظوں سے وہ مضمون پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، مثلاً:

                        مرا سینہ ہے مشرق آفتابِ داغ ہجراں کا

                        طلوعِ صبح محشر چاک ہے میرے گریباں کا

خاص کرناسخ نے عربی کے بھاری الفاظ کو اپنی شاعری میں جگہ دی جس سے ان کی شاعری کو نقصان پہنچا ہے۔ الفاظ پر زور دینے کی وجہ سے ان کی شاعری میں احساسات و جذبات کی گرمی نظر نہیں آتی ہے۔

صنعتوں کا استعمال :

ناسخ کی شاعری خارجی آرائش و زیبائش پر مبنی ہے۔ انہوں نے صنعتوں کے ذریعہ اپنی شاعری کو سنوارنے کی کوشش کی ہے جس کی وجہ سے ان کی شاعری میں تصنع اور بناوٹ کا احساس ہوتا ہے۔ خاص کر تشبیہات و استعارات ان کی شاعری میں جگہ جگہ نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے جدت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے لیکن بہت سے مقامات پر بناوٹ کا احساس ہوتا ہے۔ مثلاً:

                                        آتش رنگ حنا ہے شمع ہیں سب انگلیاں

                                        دستِ جاناں میں میرا مکتوب پروانہ ہوا

دوسری مثال:

            گر دیکھتا ہے دھوپ میں کوئی شرر مجھے

            شاخوں کی طرح سائے کو رکھتا ہے دوش پر

عشقیہ پہلو :

ناسخ کے کلام میں عشق کے جذبات و کیفیات کا رنگ بھی نظر آتا ہے۔ وہاں ہجر و فراق کی کیفیتیں بھی ہوتی ہیں جنہیں وہ موضوع بناتے ہیں۔ ایسے اشعار ان کے داخلی تجربات کے حامل نظر آتے ہیں۔مثلاً:

            میں خوب سمجھتا ہوںمگر دل سے ہوں ناچار

            اے ناصحو بے فائدہ سمجھاتے ہو مجھ کو

دوسری مثال:

تاب سننے کی نہیں بہر خدا خاموش ہو

ٹکڑے ہوتے ہیں جگر ناسخؔ تیرے فریاد سے

ابتذال و عریانیت :

ان کے ایسےاشعار بھی ہیں جہاں ابتذال اور عریانیت کی کیفیت بھی موجود ہے جو کہ ان کی شاعری کی ایک بڑی خامی ہے۔ جیساکہ مندرجہ ذیل بیت میں دیکھا جاسکتا ہے کہ کس قدر انہوں نے کھل کر وصال کی بات کی ہے۔

وصل کا دل ہوچکا جاتا نہیں ان کا حجاب

اے کبوتر باز جوڑے کے کبوتر کھول دے

درد و کرب :

بہرحال حسن و عشق کے معاملات اور ہجر وصال کی باتوں کے علاوہ زندگی کے دیگر پہلو بھی ان کی شاعری کا حصہ ہیں۔ ایسے مقام پر مبالغہ یا بناوٹ نہیں بلکہ دل سے نکلی ہوئی آواز ہوتی ہے جہاں درد و کرب کی نرم کیفیت  پائی جاتی ہے۔وہاں انہوں نے سادہ بیانی سے بھی کام لیا ہے۔ گویا ناسخ کے ایسے اشعار بھی ہیں جہاں سادگی بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ مثلاً

            زندگی زندہ دلی کا ہے نام

            مردہ دل خاک جیا کرتے ہیں

دوسری مثال:

دل نہیں مانتا جہاں جاؤں

ہائے میں کیا کروں کہاں جاؤں

جذبات کی کمی :

لیکن ان کے یہاں ایسے اشعار کم ہیں۔ زیادہ تر ان کے اشعار جذبات سے خالی ہیں۔ یعنی جذبہ جو شاعری کے لئے ضروری مانا جاتا ہے ان کے یہاں اس کی کمی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے اشعار دلوں پر اثر انداز نہیں ہوپاتے۔ ان کا زور صرف زبان پر رہا،انہوں نے شعری زبان کی اصلاح کی، قواعد و عروض کی طرف زیادہ دھیان دیا اور شاعری میں جو بھدے الفاظ اور محاورات تھے ان کو باہر کیا۔

معاشرتی پہلو :

ناسخ کی غرلوں کا موضوعاتی مطالعہ کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ  انہوں مختلف موضوعات کو اپنے اشعار میں جگہ دی ہے۔ ان کے کلام میں ان کا معاشرہ بھی نظر آتا ہے۔ ان کے کلام میں معاشرے کی خوبیاں اور خامیاں دونوں موجود ہیں۔ لیکن ناسخ یہاں بھی لفظوں میں قید نظر آتے ہیں جس کی وجہ سے جذبے کی گرمی کھو بیٹھتے ہیں۔

وطنیت :

ناسخ کی غزلوں میں وطن سے بچھڑنے کی تڑپ بھی موجود ہے۔ اور یہ کیفیت ایسی ہوتی ہے جیسے محبوب  سے بچھڑنے کی ہوتی ہے۔ ان کے ایسے اشعار میں درد کی کیفیت ہوتی ہے۔ مثلاً:

            دشت غربت میں جہاں اپنی نظر جاتی ہے

وہی کوچہ وہی بازار نظر آتا ہے

دوسری مثال:

اتنی مدت سے ہوں میں وادیٔ وحشت میں خراب

کہ وطن جاؤں تو پاؤں نہ کبھی گھر اپنا

            بہر حال ناسخؔ کے کلام کا مجموعی جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے دماغ پر زور ڈال کر مضمون پیدا کرنے کی کوشش ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں جذبات اور تاثرات نہ کے برابر ہوتے ہیں۔ لیکن ان کے دلکش اشعار کو بھی نہیں بھلایا جا سکتا جہاں تاثرات بھی ہیں گرچہ ایسے اشعار کی تعدادکم ہے۔مثلاً:

رکھتا ہے فلک سر پہ بناکر شفق اس کو

اڑتا ہے اگر رنگ حنا تیرے قدم کا

ڈاکٹر مطیع الرحمٰن                                                                                                                       

Post a Comment

0 Comments